ترک عدالت میں خاشقجی کے قتل کی سماعت شروع، منگیتر انصاف کیلئے پرامید

IQNA

ترک عدالت میں خاشقجی کے قتل کی سماعت شروع، منگیتر انصاف کیلئے پرامید

8:16 - July 04, 2020
خبر کا کوڈ: 3507863
تہران(ایکنا) پہلی سماعت کے موقع پر ان کی منگیتر نے عدالت میں کہا کہ واشنگٹن پوسٹ کے کالم نویس کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں 'ایک عظیم غداری اور فریب' کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

مقتول صحافی جمال خاشقجی کی منگیتر خدیجے چنگیز نے عدالت میں کہا کہ 'ان کے قتل کے ذمہ دار تمام افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے'۔

خدیجے چنگیز نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دو سابق ساتھیوں اور 18 دیگر سعودی شہریوں کی غیر موجودگی میں مقدمے کے آغاز کے موقع پر اپنا بیان درج کروایا۔

واضح رہے کہ 25 مارچ کو ترکی کے پراسیکیوٹر نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے دو قریبی ساتھیوں سمیت 20 افراد پر باقاعدہ فرد جرم عائد کردی تھی۔

 

قتل کی واردات کے بعد تمام 20 سعودی ملزمان ترکی سے روانہ ہوگئے جبکہ سعودی عرب نے ان کی حوالگی کے ترکی کے مطالبات کو مسترد کردیا تھا۔

 

2019 میں سعودی عرب کی ایک عدالت نے جمال خاشقجی کے قتل کے جرم میں 5 نامعلوم افراد کو سزائے موت سنادی تھی جبکہ ولی عہد محمد بن سلمان کے قریبی افراد پر کوئی اثر نہیں پڑا تھا۔

 

ریاض میں پریس کانفرنس کے دوران پبلک پراسیکیوٹر نے سزاؤں کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ دیگر تین افراد کو مجموعی طور پر 24 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

 

سعودی پراسیکیوٹر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ عدالت نے 11 افراد پر فرد جرم عائد کی تھی جس میں سے تین کو بری کردیا گیا۔

 

عدالت نے متاثرہ شخص کے قتل میں ملوث ہونے کے جرم میں 5 افراد کو سزائے موت کا حکم دیا تھا جبکہ قتل کو چھپانے اور قانون کی خلاف ورزی پر تین افراد کو مجموعی طور پر 24 سال قید کی سزا سنائی تھی۔

 

بیان میں کہا گیا تھا کہ مقدمے کی تحقیقات میں 31 افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں سے 21 کو گرفتار کر لیا گیا جبکہ 10 افراد کو صرف سوال جواب کے لیے طلب کیا گیا کیونکہ عدالت کے پاس انہیں حراست میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔

 

اس مقدمے میں سعودی شاہی عدالت کے سابق مشیر اور کنسلٹنٹ سعود القحطانی پر بھی الزام تھا کہ انہوں نے قتل کی مکمل منصوبہ بندی کی جس کی وجہ سے انہیں تفتیش کا سامنا کرنا پڑا لیکن الزام ثابت نہ ہونے پر انہیں بری کردیا گیا تھا۔

 

ان کے علاوہ عدالت نے ناکافی شواہد کی بنا پر سابق ڈپٹی انٹیلی جنس چیف احمد ال اسیری کو بھی بری کردیا تھا۔

 

جمال خاشقجی کا قتل: کب کیا ہوا؟

سعودی شاہی خاندان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے اقدامات کے سخت ناقد سمجھے جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی 2017 سے امریکا میں مقیم تھے۔

 

تاہم 2 اکتوبر 2018 کو اس وقت عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہے جب وہ ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے میں داخل ہوئے لیکن واپس نہیں آئے، بعد ازاں ان کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا گیا کہ انہیں قونصل خانے میں ہی قتل کر دیا گیا ہے۔

 

صحافی کی گمشدگی پر ترک حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے استنبول میں تعینات سعودی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا خدشہ پیدا ہوا۔

 

ترک حکام نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ سعودی صحافی اور سعودی ریاست پر تنقید کرنے والے جمال خاشقجی کو قونصل خانے کے اندر قتل کیا گیا۔

اس دوران سعودی عرب کی جانب سے مقتول صحافی جمال خاشقجی کے 4 بچوں کو 'خون بہا' میں لاکھوں ڈالر مالیت کے گھر اور ماہانہ بنیادوں پر لاکھوں ڈالر رقم دینے کا انکشاف بھی ہوا تاہم جمال خاشقجی کے خاندان نے سعودی انتظامیہ سے عدالت کے باہر مذاکرات کے ذریعے تصفیہ کی تردید کردی تھی۔

1135996

 

نظرات بینندگان
captcha